سعدى يوسف ۔ اس نے زندگی سے یہ سیکھا تھا کچھ نہ ہو تب بھی کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوتا ہے
"انسان قابل اعتبار نہیں ہوتے" "سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے"۔ سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔۔ خاص طور پر وہ انسان کسی بھی لحاظ سے مختلف نہیں ہوتے جو اپنے آپ کو مختلف مان لینے پر اصرار کرتے ہیں"
اگر آپ ایک ہائی ویلیو انسان بنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی اقدار اور اپنے اصول بھی اونچے رکھنے ہوں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کوئی خود پسند اور مغرور انسان بن جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کچھ ائل اصول بنا ئیں اور ان کے مطابق فیصلے کریں۔ اپنے اندر سے دیکھے ویلیوز نکالیں گے تو خود بخود ثبت ویلیوز آپ کا حصہ بن جائیں گی۔ یہ مت سوچیں کہ آج سے میں نے کی بولتا ہے۔ یہ سوچیں کہ آج سے میں نے جھوٹ نہیں بولتا۔ ا یہ مت سوچ میں کہ اپنے وعدے پورے کرتے ہیں۔ یہ طے کرتا ہے کہ ایسا وعدہ کرتاہی نہیں ہے جو پورا نہ کرسکیں۔
لوگوں کے لئے تو ہر چیز Too much ہوتی ہے۔ لوگوں کو سننے والے تو پیچھے رہ جاتے ہیں۔ انسان کو وہی رنگ پہننا چاہیے جس کے لیے اس کا دل چاہے۔
تم مؤمن ہو ۔۔۔ بھٹکتا مومن ہی ہے۔۔۔ جس کے پاس ایمان ہے ہی نہیں، وہ کیا بھٹکے گا؟
جوانی میں دین بائی چوائس ہونا چاہیے بائی چانس نہیں۔ یہ جس جذبے اور دل سے تم لوگ اس عمر میں عبادت کر سکتے ہونا یہ بڑھاپے میں نہیں ہو گا۔ غلط لگتا ہے تم لوگوں کو کہ بوڑھے ہو کر عبادت کی ساری کمی پوری کر لو گے ۔ بڑھاپے میں روز کیلشیم کھانا جوانی کے دنوں کے روز تین گلاس خالص دودھ پینے کے برابر نہیں ہو سکتا۔ روح بھی ہڈیوں کی طرح ہے۔ جوانی سے اسے عبادت پہ مائل کرو گے تو بڑھاپے میں درد اور تکلیف کم ہو گی۔
_ چہرے کے چند نشان، سانولی رنگت چھوٹا قد، موٹاپا۔۔ کیا انسان خوبصورتی کے ان پیمانوں کو آنکھوں میں لیے پیدا ہوا تھا یا یہ معاشرے نے اس کے ذہن میں فٹ کیے تھے؟